آہ پھر نغمہ بنا چاہتی ہے
خامشی طرزِ ادا چاہتی ہے
آج پھر وُسعتِ صحرائے جنوں
پرسشِ آبلہ پا چاہتی ہے
دیکھ کیفیتِ طوفانِ بہار
بوئے گل رنگ ہوا چاہتی ہے
موت آرائشِ ہستی کے لیے
خندۂ زخمِ وفا چاہتی ہے
دل میں اب خارِ تمنا بھی نہیں
زندگی برگ و نوا چاہتی ہے
سوچ اے دشمنِ اربابِ وفا
کیوں تجھے خلقِ خدا چاہتی ہے
اک ہمیں بارِ چمن ہیں ورنہ
غنچے غنچے کو صبا چاہتی ہے
ناصر کاظمی