جسم ہے یا چاندنی کا شہر ہے اگست 4, 2018ناصر کاظمی،برگِ نے،غزلدہر،زہر،شہرadmin ہر ادا آبِ رواں کی لہر ہے جسم ہے یا چاندنی کا شہر ہے پھر کسی ڈوبے ہوے دن کا خیال پھر وہی عبرت سرائے دہر ہے اُڑ گئے شاخوں سے یہ کہہ کر طیور اس گلستاں کی ہوا میں زہر ہے ناصر کاظمی Rate this:اسے شیئر کریں:Twitterفیس بکاسے پسند کریں:پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔ Related