تیرگی ختم ہوئی ، صبح کے آثار ہوئے
شہر کے لوگ نئے عزم سے بیدار ہوئے
شب کی تاریکی میں جو آئے تھے رہزن بن کر
صبح ہوتے ہی وہ رُسوا سرِبازار ہوئے
جگمگانے لگیں پھر میرے وطن کی گلیاں
ظلم کے ہاتھ سمٹ کر پسِ دیوار ہوئے
ہم پہ احساں ہے ترا شہر کی اے نہرِ عظیم
تو نے سینے پہ سہے ، شہر پہ جو وار ہوئے
شاخ در شاخ چمکنے لگے خوشبو کے چراغ
عالمِ خاک سے پیدا نئے گلزار ہوئے
ناصر کاظمی