تو ہے عزیزِ ملت

تو ہے عزیزِ ملت تو ہے نشانِ حیدر

احساں ہے تیرا ہم پر اے قوم کے دلاور

تو عزم کا ستارہ ، تو ہے ہلالِ جرأت

تو خادمِ وطن ہے ، تجھ سے وطن کی عزت

گاتے ہیں تیرے نغمے راوی ، چناب، جہلم

تاروں کی سلطنت پر اُڑتا ہے تیرا پرچم

سلہٹ سے تا کراچی پھیلے ہیں تیرے شہپر

تو ہے عزیزِ ملت تو ہے نشانِ حیدر

رَن کچھ کے معرکے میں جوہر دکھائے تو نے

واہگہ کی سرحدوں سے لشکر ہٹائے تو نے

توپوں کے منہ کو موڑا ، ٹینکوں کا مان توڑا

جو تیری زد میں آیا تو نے نہ اُس کو چھوڑا

زندہ کیا وطن کو تو نے شہید ہو کر

تو ہے عزیزِ ملت تو ہے نشانِ حیدر

اُونچی تری اُڑانیں ، کاری ترے نشانے

تونے جلا کے چھوڑے دُشمن کے آشیانے

باندھا ہے وہ نشانہ دُشمن کے گھر میں جا کر

تو نے گرائے ہنٹر اِک آن میں جھپٹ کر

بجلی ہیں تیرے بمبر ، شاہیں ہیں تیرے سیبر

تو ہے عزیزِ ملت تو ہے نشانِ حیدر

ساندل کے آسماں سے روکے ہیں تو نے حملے

راوی کی وادیوں پر احساں ہیں تیرے کتنے

چھنب اور جوڑیاں میں گاڑا ہے تو نے جھنڈا

اے دوارکا کے غازی زندہ ہے نام تیرا

ہیبت سے تیری لرزاں کہسار اور سمندر

تو ہے عزیزِ ملت تو ہے نشانِ حیدر

وہ شہر بلھے شاہ کا بستا ہے تیرے دَم سے

خوشحال خاں کی نگری ہے تیرے دَم قدم سے

داتا کا شہر تو نے پائندہ کر دیا ہے

اقبال کے وطن کو پھر زندہ کر دیا ہے

ہر دیس ، ہر نگر میں چرچا ہے تیرا گھر گھر

تو ہے عزیزِ ملت تو ہے نشانِ حیدر

(۲۹ ستمبر ۱۹۶۵)

ناصر کاظمی

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s