جو گفتنی نہیں وہ بات بھی سنا دُوں گا
تو ایک بار تو مل، سب گلے مٹا دُوں گا
مجال ہے کوئی مجھ سے تجھے جدا کر دے
جہاں بھی جائے گا تو میں تجھے صدا دُوں گا
تری گلی میں بہت دیر سے کھڑا ہوں مگر
کسی نے پوچھ لیا تو جواب کیا دُوں گا
مری خموش نگاہوں کو چشمِ کم سے نہ دیکھ
میں رو پڑا تو دلوں کے طبق ہلا دُوں گا
یونہی اداس رہا میں تو دیکھنا اِک دِن
تمام شہر میں تنہائیاں بچھا دُوں گا
بہ پاسِ صحبتِ دیرینہ کوئی بات ہی کر
نظر ملا تو سہی میں تجھے دُعا دُوں گا
بلاؤں گا نہ ملوں گا نہ خط لکھوں گا تجھے
تری خوشی کے لیے خود کو یہ سزا دُوں گا
وہ درد ہی نہ رہا ورنہ اے متاعِ حیات
مجھے گماں بھی نہ تھا میں تجھے بھلا دُوں گا
ابھی تو رات ہے کچھ دیر سو ہی لے ناصر
کوئی بلائے گا تو میں تجھے جگا دُوں گا
ناصر کاظمی