موسمِ گلزارِ ہستی اِن دنوں کیا ہے نہ پوچھ
تونے جو دیکھا سنا کیا میں نے دیکھا ہے نہ پوچھ
ہاتھ زخمی ہیں تو پلکوں سے گلِ منظر اُٹھا
پھول تیرے ہیں نہ میرے باغ کس کا ہے نہ پوچھ
رات اندھیری ہے تو اپنے دھیان کی مشعل جلا
قافلے والوں میں کس کو کس کی پروا ہے نہ پوچھ
جو ترا محرم ملا اس کو نہ تھی اپنی خبر
شہر میں تیرا پتا کس کس سے پوچھا ہے نہ پوچھ
ناصر کاظمی