تضمین براشعارِ غالب

یہ کون طائرِ سد رہ سے ہم کلام آیا

یہ کون طائرِ سد رہ سے ہم کلام آیا

جہانِ خاک کو پھر عرش کا سلام آیا

جبیں بھی سجدہ طلب ہے یہ کیا مقام آیا

’’زباں پہ بارِ خدایا! یہ کس کا نام آیا

کہ میرے نطق نے بوسے مری زباں کے لیے‘‘

خطِ جبیں ترا اُمّ الکتاب کی تفسیر

کہاں سے لاؤں ترا مثل اور تیری نظیر

دکھاؤں پیکرِ الفاظ میں تری تصویر

’’مثال یہ مری کوشش کی ہے کہ مرغِ اسیر

کرے قفس میں فراہم خس آشیاں کے لیے‘‘

کہاں وہ پیکرِ نوری ، کہاں قبائے غزل

کہاں وہ عرش مکیں اور کہاں نوائے غزل

کہاں وہ جلوئہ معنی ، کہاں ردائے غزل

’’بقدرِ شوق نہیں ظرفِ تنگنائے غزل

کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے‘‘

تھکی ہے فکرِ رسا اور مدح باقی ہے

قلم ہے آبلہ پا اور مدح باقی ہے

تمام عمر لکھا اور مدح باقی ہے

’’ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے

سفینہ چاہیے اس بحرِ بیکراں کے لیے‘‘

ناصر کاظمی

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s