اے داتا بادل برسا دے
فصلوں کے پرچم لہرا دے
دیس کی دولت دیس کے پیارے
سوکھ رہے ہیں کھیت ہمارے
ان کھیتوں کی پیاس بجھا دے
اے داتا بادل برسا دے
یوں برسیں رحمت کی گھٹائیں
داغ پرانے سب دُھل جائیں
اب کے برس وہ رنگ جما دے
اے داتا بارش برسا دے
کھیتوں کو دانوں سے بھر دے
مردہ زمیں کو زندہ کر دے
تو سنتا ہے سب کی دعائیں
داتا ہم کیوں خالی جائیں
ہم کو بھی محنت کا صلہ دے
اے داتا بادل برسا دے
(دو فروری ۱۹۶۷)
ناصر کاظمی