تو جنت میرے خوابوں کی
تری مٹی کے ہر ذرّے میں
خوشبو ہے نئے گلابوں کی
تو جنت میرے آبا کی
گل ریز ہے تیرا ہر گوشہ
زرخیز ہے تیری ہر وادی
تو دولت میری نسلوں کی
ترے دامن میں پوشیدہ ہے
تقدیر سنہری فصلوں کی
تو ساحل میری کشتی کا
ہر آن بدلتے موسم میں
تو حاصل میری کھیتی کا
تو محنت ہے مزدُوروں کی
آبادی میں ، ویرانی میں
تو طاقت ہے مجبوروں کی
تو جنت ماہی گیروں کی
تو سندر بن مرے گیتوں کا
تو ٹھنڈی رات جزیروں کی
تو چاند اندھیری راتوں کا
اُمید کے تنہا جنگل میں
تو جگنو ہے برساتوں کا
تو سرمایہ مری غربت کا
میں تیرے دَم سے زندہ ہوں
تو پرچم ہے مری ہمت کا
ترے جنگل ، پربت ہرے رہیں
یہی رنگ رہے تری جھیلوں کا
چشمے پانی سے بھرے رہیں
تری مانگ جواں رہے پھولوں سے
ترے ننھے پودے ہنستے رہیں
تری گود بھری رہے جھولوں سے
تو میرا لہو میں تیرا لہو
تو میرا شجر میں تیرا ثمر
جو تیرا عدو وہ میرا عدو
اے ارضِ وطن مجھے تیری قسم
جب تجھ کو ضرورت ہو میری
شمشیر بنے گا میرا قلم
میں تیرے لیے پھر آؤں گا
ہر عہد میں تیری نسلوں کو
خوشیوں کے گیت سناؤں گا
(۱۹۷۱ ۔ لاہور ٹی وی)