جب تلک دم رہا ہے آنکھوں میں
ایک عالم رہا ہے آنکھوں میں
گریہ پیہم رہا ہے آنکھوں میں
رات بھر نم رہا ہے آنکھوں میں
اُس گلِ تر کی یاد میں تا صبح
رقصِ شبنم رہا ہے آنکھوں میں
صبحِ رخصت ابھی نہیں بھولی
وہ سماں رم رہا ہے آنکھوں میں
دل میں اک عمر جس نے شور کیا
وہ بہت کم رہا ہے آنکھوں میں
کبھی دیکھی تھی اُس کی ایک جھلک
رنگ سا جم رہا ہے آنکھوں میں
ناصر کاظمی