ہم جس پیڑ کی چھاؤں میں بیٹھا کرتے تھے
اب اُس پیڑ کے پتے جھڑتے جاتے ہیں
ایک انوکھی بستی دھیان میں بستی ہے
اُس بستی کے باسی مجھے بلاتے ہیں
میں تو آنکھیں بند کیے بیٹھا ہوں مگر
دل کے دروازے کیوں کھلتے جاتے ہیں
تو آنکھوں سے اوجھل ہوتا جاتا ہے
دُور کھڑے ہم خالی ہاتھ ہلاتے ہیں
جب بھی نئے سفر پر جاتا ہوں ناصر
پچھلے سفر کے ساتھی دھیان میں آتے ہیں
ناصر کاظمی