معمول میں رندوں کے ساقی نہ خلل آئے
گر مے پہ ہے پابندی کچھ اُس کا بدل آئے
مایوس نہیں کرتا میں تجھ کو مگر اے دل
جو آج نہیں آیا مشکل ہے وہ کل آئے
چاہا بھی کہ ہو جائیں کچھ اہلِ ہوس جیسے
پر جو اُنہیں آتے ہیں ہم کو نہ وہ چھل آئے
شاید یہی بہتر ہے ہو جائیں ہمیں سیدھے
قبل اِس کے کہ ماتھے پر اُس شوخ کے بَل آئے
تم دیکھ تو لو آ کر بیمار کو اپنے، پھر
چاہے یہ شفا پائے یا اِس کی اجل آئے
باصر کاظمی