معلوم ہے کہ وہ تو ملے گا نہیں کہیں
کھو جائیں گے تلاش میں اُس کی ہمیں کہیں
شاید فلک ہی ٹوٹ پڑا تھا وگرنہ یوں
جاتا ہے چھوڑ کر کوئی اپنی زمیں کہیں
اک دوسرے کو دیکھتے ہیں آئینے کی طرح
ہو جائیں روبرو جو کبھی دو حسیں کہیں
مقصود اِس سے اہلِ نظر کا ہے اِمتحاں
وہ سامنے نہیں ہے مگر ہے یہیں کہیں
شہروں میں اپنے گویا قیامت ہی آگئی
اڑ کر مکاں کہیں گئے باصرِؔ مکیں کہیں
باصر کاظمی