کوئی زباں دراز کوئی بے زبان ہے

لاکھوں میں کوئی کوئی یہاں خوش بیان ہے
کوئی زباں دراز کوئی بے زبان ہے
جتنے بھی تِیر تھے تِرے ترکش میں چل چکے
مدت سے تیرے ہاتھ میں خالی کمان ہے
مجھ سے زیادہ خود پہ وہ کرنے لگا ستم
جانا ہے جب سے اُس نے مِری اُس میں جان ہے
اکثر رہی ہے میرے تخیل کی سیر گاہ
وہ سَر زمین جس کے تلے آسمان ہے
کچھ تو یہ دل بھی ہو گیا کم ہمتی کا صید
اور کچھ بدن میں پچھلے سفر کی تکان ہے
ایسے پڑے ہوئے ہیں لبوں پر ہمارے قفل
ہم بھول ہی گئے ہیں کہ منہ میں زبان ہے
باصرِؔ کچھ اپنے آپ میں رہنے لگا ہے مست
اے حُسنِ بے خیال ترا امتحان ہے
باصر کاظمی

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s