گو کہ پیچھے بہت قطار میں تھے
کسی گنتی کسی شمار میں تھے
سو بلاؤں سے ہم رہے محفوظ
اک پُراسرار سے حصار میں تھے
خوش ہوا ہوں غموں سے مل کے یوں
جیسے یہ میرے انتظار میں تھے
تین میں ہیں نہ اب وہ تیرہ میں
جو کبھی پہلے تین چار میں تھے
اب وہ سارے خزاں میں ہیں باصِرؔ
رنگ جتنے کبھی بہار میں تھے
باصر کاظمی