اتنے کڑوے دور میں شیریں مقالی کس طرح
پوچھ مت اپنی زباں ہم نے سنبھالی کس طرح
حُسن و خوبی اک طرف اُس پر وفا بھی ختم ہے
ہم کو بہلاتا ہے محبوبِ خیالی کس طرح
ہو گیا دل کے مکاں میں اک حسیں آ کر مکیں
فکر یہ ہے اب کرائیں اِس کو خالی کس طرح
پاؤں رکھنا بھی جہاں کل تک نہ تھا زیبا اُنہیں
وقت نے لا کر بنایا ہے سوالی کس طرح
ہو گئے بے حال جو تیرے تغافل کے سبب
کس طرح ہو گی مگر ان کی بحالی کس طرح
کر گئے اپنا جگر چھلنی تِری یادوں کے تِیر
اب ہوائے غم کو روکے گی یہ جالی کس طرح
گلشنِ جاں میں ہوائے شعر پھر سے چل پڑی
جھومتی ہے پتی پتی ڈالی ڈالی کس طرح
جس کے من میں ہر گھڑی رہتا ہو تجھ سا جلوہ گَر
اُس کی باتوں میں نہ ہو روشن خیالی کس طرح
مدتیں درکار ہیں باصرِؔ حصولِ صبر کو
ایک دن میں تم نے یہ دولت کما لی کس طرح
باصر کاظمی