کہاں کی آہ و فغاں لب ہلا نہیں سکتا
وہ رات ہے کہ دیا بھی جلا نہیں سکتا
وہ نقش چھوڑ گئے زندگی میں اہلِ ہنر
فنا کا ہاتھ بھی جن کو مٹا نہیں سکتا
وہ پیڑ دیکھے ہیں میں نے سفر میں اب کے برس
زمینِ شعر میں جن کو اُگا نہیں سکتا
جو میرا دوست نہ ہو کر بھی میرے کام آیا
میں ایسے شخص کو دشمن بنا نہیں سکتا
شریکِ سازشِ دل ایسا کون تھا باصرِؔ
تُو جس کا نام بھی ہم کو بتا نہیں سکتا
باصر کاظمی