جو سو چکا تھا نئے موسموں کی چھاؤں میں
وہ درد پھر سے جگا کر گزر گیا کوئی
خیالِ حُسن بھی گویا کہ نشہء مے تھا
ذرا سی دیر میں دل سے اتر گیا کوئی
تجھے یہ فخر کہ تُو راز ہی رہا لیکن
مجھے یہ رنج کہ کیوں بے خبر گیا کوئی
رہِ حیات میں کتنے سکون سے باصرِؔ
پکار موت کی سن کر ٹھہر گیا کوئی
باصر کاظمی