صریحاَ روزِ محشر کا سا نقشہ اُس سمے تھا
مرے اعمال کا سارا نتیجہ سامنے تھا
جدا تھے راستے منزل اگرچہ ایک ہی تھی
کہانی وصل کی عنوان جس کا فاصلے تھا
کھلاڑی مجھ سے بہتر بیسیوں پیدا ہوئے ہیں
مگر شطرنج سے جو عِشق مجھ کو تھا کِسے تھا
دیا تھا اختیارِ انتخاب اُس نے مجھے سب
مجھے معلوم ہے پہلے سے تو کچھ بھی نہ طے تھا
بصارت اور سَماعت کے لیے کیا کچھ نہ تھا پر
الگ ہر رنگ ہر آواز سے اِک بَرگِ نَے تھا
باصر کاظمی