1970
ہماری آنکھ نہ ہوتی تو حُسن کیا کرتے
ہمارے دل میں نہ ہوتے تو وہ کہاں ہوتے
میری خوشی میں تیری خوشی تھی
اب دُکھ میں کیوں بھاگ رہا ہے
بعد موت کے ہماری روح
دنیا کو کیا پاتی ہو گی
یہ تھوڑا تھوڑا جو پینے کو مل رہا ہے تو کیا
مزا ہی جب ہے کہ پینے کے بعد پیاس رہے
1974
آشنا درد سے ہونا تھا کسی طور ہمیں
تُو نہ ملتا تو کسی اور سے بچھڑے ہوتے
1986
اب کے جھگڑا ہے مِرا خوبیِ تقدیر کے ساتھ
نامۂ شیریں ملا تلخیِ تاخیر کے ساتھ
ہم نے دانستہ بھُلا ڈالے جو دیکھے تھے خواب
زندگی کٹ نہیں سکتی تِری تصویر کے ساتھ
فاصلے کسی طرح کچھ اگر ہوئے کم بھی
دیکھتے رہے تم بھی سوچتے رہے ہم بھی
گرچہ اپنی جیب میں بھی کچھ سِکے ہیں
لیکن اِس بازار میں یہ کب چلتے ہیں
1987
یا تو مجنوں کی سی وحشت ہی دکھائی ہوتی
زندگی ورنہ قرینے سے بِتائی ہوتی
دور رہتا ہے وہ دانستہ مری محفل سے
ہے کوئی بات کہ جاتی نہیں اُس کے دل سے
یہ آنکھیں دماغ اور دل دشمن ہیں جگر تیرے
مارا تجھے اپنوں نے الزام ہے غیروں پر
یہ مزاجِ یار کی بھول ہے بھلا یہ کہاں کا اصول ہے
کسی ایک دن جو بھلا لگا وہ تمام عُمر بھلا لگے
کہتا رہا میں اُس سے کہ ہاں ہاں کہو کہو
لیکن زبانِ دوست پہ ’بس کچھ نہیں‘ رہا
تم روشنیِ صبح ہو میں تیرگیِ شب
سچ ہے کہ مرے تم سے ستارے نہیں ملتے
جاتا نہیں ہے جڑ سے کبھی عشق کا مرض
ہوتا ہے چند روز دوائی سے فائدہ
شکوے کا اب خیال بھی آتا نہیں ہمیں
وہ بات ہی نہیں تو لڑائی سے فائدہ
مِل رہا ہے آج وہ جس طور سے
آپ نے دیکھا نہیں ہے غور سے
آپ تو اُس کے لیے سُولی چڑھیں
اور وہ پینگیں بڑھائے اور سے
1990
ہر بات کا سُراغ نہاں اُس کی ضد میں ہے
چاہا تھا اپنے آپ کو پانا سو کھو گئے
اچھے ہیں سب حیات کے جتنے بھی دور ہیں
یہ بات جو سمجھ گئے وہ لوگ اور ہیں
16اکتوبر
1991
ہو جائیں نفس چند کہیں آ کے جو آباد
سمجھو کہ وہیں پڑ گئی اِک شہر کی بنیاد
یکم جنوری
1993
کرو میلا نہ دل اپنا سُنا ہوگا یہ تم نے بھی
بُرا کہنا بھلے لوگوں کو عادت ہے زمانے کی
بچھڑنے والے اپنے ساتھ کیا کیا لے گئے باصرؔ
یہ دنیا دلنشیں اتنی نہیں اب جتنی پہلے تھی
12فروری
اللہ ایسے موقعے مجھے بار بار دے
جتنا ادھار ہے مرے سر سے اتار دے
16جون
آتا نہیں اُنہیں کبھی خود سے مرا خیال
میں گاہے گاہے خود ہی بتاتا ہوں اپنا حال
باصرِؔ تمام دن کی مشقت بجا مگر
ہے ابتدائے شب ابھی سونے کا کیا سوال
اگست
1994
دنیا کے بکھیڑوں سے نکل پائیں گے کیسے
کہتے تو تھے آئیں گے مگر آئیں گے کیسے
7مئی
پڑا ہے آج ہمیں ایک مطلبی سے کام
خدا کرے کہ اُسے ہم سے کام پڑ جائے
13مارچ
1995
میری خوش وقتی سے پرخاش کچھ ایسی ہے تجھے
دل جلے جس سے مرا بات وہ کرنی ہے تجھے
مجھے کرنی تو ہے کچھ بات مگر ایسے نہیں
آج لگتا ہے کسی بات کی جلدی ہے تجھے
20نومبر
1996
ہو جس کی ہمیں طلب زیادہ
ملتی ہے وہ چیز کب زیادہ
پہلے سے زیادہ گرم ہے جیب
لینے لگے قرض اب زیادہ
18مارچ
اہلِ دل آ گئے کہاں سے کہاں
دیکھیے جائیں گے یہاں سے کہاں