1997
سُورج کا یہ رنگ نہ تھا جو وقتِ شام ہُوا ہے
دیکھو کیسا سَرکش گھوڑا کیسا رام ہُوا ہے
…
اِنصاف اگر کہیں ہے کچھ
جنّت کا نشاں وہیں ہے کچھ
آ جائیں گے دیکھنے تمہیں ہم
کہنا تو ہمیں نہیں ہے کچھ
ستمبر
…
حاضری کے واسطے سرکار کا دفتر کھُلا
کتنے چکّر کاٹنے کے بعد یہ چکّر کھُلا
دسمبر
…
2000
سب حسینوں کا حُسن تجھ میں ہے
اور تِرا حُسن سب حسینوں میں
12 ۱کتوبر
…
2001
جو منافع نہ مِل سکا باصِرؔ
اُس کو نقصان کیوں سمجھتے ہو
3دسمبر
…
2003
کھُلتے ہی نہیں کسی صورت
وہ ہونٹ بھی سُرخ فیتے ہیں
ہیں سارے کے سارے آدم خور
شہروں میں جو شیر چیتے ہیں
جنوری
…
یوں بھی کم تھی اُس کے آنے کی اُمید
اب تو ویسے بھی اندھیرا ہو گیا
28جنوری
…
نقصان پر جو میرے افسوس کر رہے ہیں
میں جانتا ہوں کتنا اندر سے خوش ہوئے ہیں
9مارچ
…
نیند میں بھی بھٹک نہیں سکتا
روز کا راستہ ہے یہ میرا
3اپریل
…
جس نے ماں باپ کو دیا ہو دُکھ
اُس نے اولاد سے نہ پایا سُکھ
4دسمبر
…
2004
گئے خط بے اثر سارے
اُسے بھیجوں گا اب سی وی
4اپریل
…
نکل گیا ہے مِری زندگی سے وہ شاید
کئی دنوں سے مِرے خواب میں نہیں آیا
10جون
…
وہاں جانے سے کیا ڈرنا
جہاں سب جائیں گے اک دن
غلط سمجھے ہیں جو ہم کو
بہت پچھتائیں گے اک دن
13جولائی
…
جن دنوں روتا تھا تیری یاد میں
رو رہا ہوں اُن دنوں کی یاد میں
3ستمبر
…
2005
کیا مشورہ کوئی دے اب ایسے آدمی کو
جانے دیا ہو جس نے گھر آئی لکشمی کو
10جولائی
…
اب آ کے دیکھتے ہیں شجر ہیں وہ سایہ دار
جاتے ہوئے جو بیج یہاں بو گئے تھے ہم
19ستمبر
…
شفا ہوتی دوا سے معجزہ ایسا تو کیا ہوتا
مگر بیمار کچھ دِن اور جی لیتا تو کیا ہوتا
ابھی اُس کے نہ مِلنے پر عداوت ہے زمانے کو
کسی تدبیر سے وہ ہم کو مِل جاتا تو کیا ہوتا
دسمبر
…
ہے اِتنا کچھ جہاں دل میں ہمارے ناخداؤں کے
خیالِ خلق بھی ہوتا اگر خوفِ خدا ہوتا
دسمبر
…
اب آ کے دیکھتے ہیں شجر ہیں وہ سایہ دار
جاتے ہوئے جو بیج یہاں بو گئے تھے ہم
19دسمبر
2006
کسی سبب سے جو وہ دے سکیں نہ میرا ساتھ
نہیں ہے اِس میں بُرا ماننے کی کوئی بات
سلوک اُس کا ترے ساتھ ٹھیک ہے باصِرؔ
کوئی تو ہو جو بتائے تجھے تِری اوقات
16فروری
…
گزر گئی ہے اِسی کاہلی میں عُمر تمام
یہ سوچتے رہے بس اب کریں گے کل سے کام
یہ سوچ کر کہ مِلے گا ضرور اب کے جواب
نجانے لِکھّے ہیں خط کتنی بار اپنے نام
نومبر
…
گو شاعری پڑھنے کا اُسے شوق بہت ہے
کیا کیجیے اِس کا کہ وہ بدذوق بہت ہے
دسمبر
…
ایک دشمن کی کمی تھی باصِرؔ
وہ بھی اِک دوست نے پوری کر دی
8دسمبر
…
2007
جب چاہیے ہو ملتی ہے تازہ ہَوا مجھے
شاید کبھی لگی تھی کسی کی دعا مجھے
5جولائی