یہ نہیں ہے کہ دل شکستہ نہیں
لب ابھی آشنائے نالہ نہیں
مجھ سے ہر بات کی توقع رکھ
آدمی ہوں کوئی فرشتہ نہیں
کھائے ہیں اِس قدر فریب کہ اب
اعتبارِ حواسِ خمسہ نہیں
یہ بھی اب کے بھری بہار میں دیکھ
باغ میں کوئی گُل شگفتہ نہیں
داغِ ماضی چراغِ فردا ہے
یادگارِ چراغِ کشتہ نہیں
کس طرح مان لوں کہ دل کی گھٹن
کسی طوفاں کا پیش خیمہ نہیں
دائمی روگ ہے جسے لگ جائے
عشق دو چار دن کا قصہ نہیں
اپنے دل میں پناہ لے باصرِؔ
اِس سے محفوظ کوئی قلعہ نہیں
باصر کاظمی