مزاج اپنا غلامی سے یہ بنا ہے کہ ہم
قفس میں ہوتے ہیں آزاد گلستاں میں اسیر
ہدف ہے گرچہ نشانے پہ ایک مدت سے
میں کیا کروں کہ مرا تیر ہے کماں میں اسیر
نہ کر سکا جو فراہم قفس مجھے صیاد
تو کر دیا مجھے میرے ہی آشیاں میں اسیر
رہا تو کر انہیں پھر دیکھ معجزے باصِرؔ
جو قوتیں ہیں تری خاکِ ناتواں میں اسیر
باصر کاظمی