غزل کہتے ہیں

اُس کے آنے پہ غزل کہتے ہیں

اُس کے جانے پہ غزل کہتے ہیں

دھُوپ نکلے تو غزل ہوتی ہے

اَبر چھانے پہ غزل کہتے ہیں

ناشتے پر ہے غزل کا سامان

رات کھانے پہ غزل کہتے ہیں

مُہر ہم اپنے تخلّص کی لیے

دانے دانے پہ غزل کہتے ہیں

دل اُجڑنے پہ بہت شعر ہوئے

گھر بَسانے پہ غزل کہتے ہیں

منہ دکھائی میں غزل کا تحفہ

رُخ چھُپانے پہ غزل کہتے ہیں

نہیں لازم کہ کوئی زخم لگے

سَر کھُجانے پہ غزل کہتے ہیں

ہے کچہری کبھی موضوعِ سخن

کبھی تھانے پہ غزل کہتے ہیں

انقلابی ہوئے جب سے شاعر

کارخانے پہ غزل کہتے ہیں

اِس قدر سہل غزل کہنا ہے

سانس آنے پہ غزل کہتے ہیں

بیٹھ کر کُنجِ قفس میں باصرؔ

آشیانے پہ غزل کہتے ہیں

باصر کاظمی

تبصرہ کریں