پھر اُس کا ذکر چھیڑا ہے صبا نے
ستانے آ گئے موسم سہانے
تصور میں پھر اُس کی شکل چمکی
جسے دیکھے ہوئے گزرے زمانے
ذرا دیکھو تو کیا حالات بدلے
نئے لگنے لگے قصے پرانے
ہماری آنکھ کے تارے تھے جو لوگ
وہی آ کر آنکھیں لگے دکھانے
میں اکثر سوچتا رہتا ہوں باصرؔ
یہ کیا دنیا بنائی ہے خدا نے
باصر کاظمی