کرتے رہے کر سکتے تھے ہم جتنی بھی کوشش
دیوارِ تعصب میں کہاں ہونی تھی جنبش
زنداں کی سلاخوں سی ہیں پانی کی یہ تاریں
صیاد سے کچھ کم نہیں ہر وقت کی بارش
لازم نہیں پیدل چلوں یا دوڑ لگاؤں
ہیں گھر کے مرے کام ہی اچھی بھلی ورزش
مانا کہ علاج اس کے سوا کچھ نہیں لیکن
کیا دل کے بدلنے سے بدل جائے گی خواہش
کوتاہیاں اپنی تو دکھائی نہیں دیتیں
ہر بات میں آتی ہے نظر غیر کی سازش
کچھ سنگِ گراں مایہ ہمیں بھی ملے باصِرؔ
سچ ہے کہ اکارت نہیں جاتی کوئی کاوش
باصر کاظمی