دیوارِ تعصب میں کہاں ہونی تھی جنبش

کرتے رہے کر سکتے تھے ہم جتنی بھی کوشش
دیوارِ تعصب میں کہاں ہونی تھی جنبش
زنداں کی سلاخوں سی ہیں پانی کی یہ تاریں
صیاد سے کچھ کم نہیں ہر وقت کی بارش
لازم نہیں پیدل چلوں یا دوڑ لگاؤں
ہیں گھر کے مرے کام ہی اچھی بھلی ورزش
مانا کہ علاج اس کے سوا کچھ نہیں لیکن
کیا دل کے بدلنے سے بدل جائے گی خواہش
کوتاہیاں اپنی تو دکھائی نہیں دیتیں
ہر بات میں آتی ہے نظر غیر کی سازش
کچھ سنگِ گراں مایہ ہمیں بھی ملے باصِرؔ
سچ ہے کہ اکارت نہیں جاتی کوئی کاوش
باصر کاظمی

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Twitter picture

آپ اپنے Twitter اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s