ہم کو بھی شریکِ غم کر لے
تو اپنا غم کچھ کم کر لے
چاہت کا چراغ نہیں چھپتا
جتنا چاہے مدھم کر لے
شاید کوئی راہ نکل آئے
آ کچھ باتیں باہم کر لے
تُو کون ہے جو تیرے آگے
دنیا اپنا سر خم کر لے
یوں کب تک سوچے گا باصرِؔ
جو کرنا ہے یک دم کر لے
باصر کاظمی