عجب نہیں جو بنا دیں پہاڑ رائی کا
اُنہیں بہانہ کوئی چاہیے لڑائی کا
ہمیں تو آنکھوں کے دیکھے کا اعتبار نہیں
اُدھر بھروسہ ہے کتنا سنی سُنائی کا
ہمیں تو لگتی ہے دشوار بندگی بھی بہت
عجیب تھے جنہیں دعوی رہا خدائی کا
چمک سی ایک فریبِ امید کی جو نہ ہو
جو موت کا ہے وہی رنگ ہے جدائی کا
باصر کاظمی