اس فکرِ روزگار میں سب کھَپ گیا دماغ
اب شاعری کو چاہیے اک دوسرا دماغ
اب کوئی بات ٹھیک سے رہتی نہیں ہے یاد
وہ دل کہاں چلا گیا اور کیا ہُوا دماغ
اُٹھا جو یہ سوال کہ ثالث کسے بنائیں
میں نے کہا کہ دل سہی اُس نے کہا دماغ
تھا دل تو چیز کیا صفِ مژگاں کے سامنے
اس معرکے میں شکر یہ ہے بچ گیا دماغ
باصرِؔ یہ آدمی بھی ہے کتنی عجیب چیز
اِتنے سے اِس کے سَر میں ہے کتنا بڑا دماغ
باصر کاظمی