نئی روایت کا ناک نقشہ بنا رہی ہے
سُخن کی ہندہ ، مِرا کلیجا چبا رہی ہے
شجر پہ بیٹھے ہوئے پرندے اُڑا رہی ہے
ہوا درختوں کو ناچ گانا سِکھا رہی ہے
بڑے بزرگوں سے سُن رکھا ہے زمین زادی
مسافرانِ عدم کی حیرت بڑھا رہی ہے
ہماری قبروں پہ رونے والا کوئی نہیں ہے
ہماری قبروں کو دھوپ تکیہ بنا رہی ہے
سفید جوڑے میں سج سنور کر وہ شاہ زادی
خدائے حُسن و جمال کا دل لُبھا رہی ہے
زمیں خموشی سے چل رہی ہے فلکؔ اُٹھائے
مگر یہ ہجرت قدم قدم پر رُلا رہی ہے
افتخار فلک