انا زادوں سے نسبت ہے، اذیّت ہے
یہاں جتنی سہولت ہے اذیّت ہے
خردمندی اِسی میں ہے اُٹھا لے جا
تجھے میری ضرورت ہے اذیّت ہے
ترے پیچھے چلے جانا چلے آنا
بڑی کافر طبیعت ہے اذیّت ہے
بلا کا بدگُماں ہے وہ، مگر پھر بھی
مجھے اُس سے محبّت ہے اذیّت ہے
اُٹھا کر پھینک دے ساری کتابوں کو
اگر اُن میں نصیحت ہے ، اذیّت ہے
ابھی باہر پڑا رہنے دے سردی میں
ابھی مجھ میں تمازت ہے اذیّت ہے
فلک تجھ سے کہا تھا نا! محبّت میں
اذیّت ہے ۔ اذیّت ہے ۔ اذیّت ہے
افتخار فلک