لگے ہاتھوں خدائی استعارہ ہاتھ لگ جائے
فرازِ آدمیّت کا ستارا ہاتھ لگ جائے
کئی عشّاق پیڑوں کی طبیعت صاف ہو جائے
پرندوں کے پروں کو گر ہمارا ہاتھ لگ جائے
مجھے کوزہ گری کا فن ودیعت ہو رہا ہو جب
دعا کیجے اُسی لمحے یہ گارا ہاتھ لگ جائے
غزل سے نعت کی جانب سفر آسان ہو جائے
وِلائے پنج تن کا گر سہارا ہاتھ لگ جائے
میں اک دم شاد ہو جاؤں نویدِ زندگی پاؤں
مجھے قسمت سے گر جاناں تمہارا ہاتھ لگ جائے
فلکؔ محجور ہونے تک حریمِ ناز کا نقشہ
مرے اک اک حواری کے دوبارہ ہاتھ لگ جائے
افتخار فلک