زندگی کا ذائقہ چکھتا رہا
میں اُسے بےفائدہ چکھتا رہا
اپنے کمرے میں اکیلا بیٹھ کر
رات بھر میں تٙخلیہ چکھتا رہا
شعر کہنے کی ہوس میں دوستو!
میں ردیف و قافیہ چکھتا رہا
تیرے پاؤں کے نِشاں رہبر بنے
کارواں یہ مُعجزہ چکھتا رہا
بال کھولے تُو سنورتی رہ گئی
تیری صُورت آئنہ چکھتا رہا
ماں تمہاری یاد میں بوڑھی ہوئی
باپ پیہم عارضہ چکھتا رہا
قہقہوں کے شور میں اِک مسخرہ
منھ چُھپائے حادثہ چکھتا رہا
افتخار فلک