ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 4
نئی رُتوں،نئی فصلوں کی تاب دے مُجھ کو
میں تِیرہ بخت ہوں ،دے، آفتاب دے مُجھ کو
جو مُجھ کو حوصلہ، جِینے کا حوصلہ دے دیں
اُڑوں میں جِن کے سہارے وُہ خواب دے مُجھ کو
یہ تُو جو خود ہی کرے شاد، پِھر کرے ناشاد
یہ کیا مذاق ہے بس یہ جواب دے مُجھ کو
مری بساط بھی دیکھ اے خُدا! خُدا ہے جو تُو
میں جِن کا اہل ہوں ایسے عذاب دے مُجھ کو
ہُوا جو مجھ پہ ہر اُس ظلم کی تلافی ہو
مرے زماں!کوئی ایسا خطاب دے مُجھ کو
مجھے جو دے تو کوئی نعمتِ فراواں دے
تووں سا تپنے لگا ہُوں سحاب دے مُجھ کو
لہو کے بیچ سے جو حِدّتِ سکوں بخشے
رگوں سے خِلق ہو جو وُہ شراب دے مُجھ کو
ماجد صدیقی