ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 17
دل کی جو بھی ہو طلب،تجھ سے اعادہ چاہے
اور ترا ہجر، ترا دھیان زیادہ چاہے
تیری آنکھوں کے سوا مستیاں چھلکیں نہ کہیں
جسم کا جام ترے قرب کا بادہ چاہے
سچ وہ سورج کی کرن ہے جو چھپائے نہ چھپے
مکر جیسا بھی ہو ہر آن لبادہ چاہے
گانٹھ کیسی ہو وہ اس سے کبھی کھولے نہ کھلے
حسن چاہت کی کوئی بات ہو سادہ چاہے
چاند جذبوں کی صداقت سے پہنچ کو پہنچے
کوہ کھدنے کو بڑا سخت ارادہ چاہے
تجھ سے ملنے کو پروبال بھی درکار ہیں اب
اب تو ماجِد بھی ہوا پر کوئی جادہ چاہے
ماجد صدیقی