ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 18
گھِر گیا ہے سیاستِ دل میں
ماں! ترا لاڈلا ہے مشکل میں
عمر گزری تلاش کرتے ہوئے
روشنی آنسوؤں کی جھلمل میں
اپنا عکسِ نصیب دیکھ لیا
چمپئی گال پر سجے تِل میں
ڈنک مارا تحفّظِ جاں کو
سانپ بزدل تھا گُھس گیا بِل میں
ہم نے ظالم سے یوں کہی دل کی
چھید جیسے کرے کوئی سِل میں
جانے ماجد کن آنسوؤں سے لگا
اک کٹاؤ سا جسم کی گِل میں
ماجد صدیقی