حال مخالف تھے سب کے سب دریا میں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 8
ہم نے اُتارا جس دم مرکب دریا میں
حال مخالف تھے سب کے سب دریا میں
جب سے کنارے اُس کے تُجھ سے ملن ٹھہرا
اُترے آس کے کیا کیا کوکب دریا میں
ہر تنکے ہر پیڑ کو جو جتلاتا تھا
زور نہیں وہ پہلا سا اب دریا میں
ہاتھ میں چپّو تان لئے تو ڈرنا کیا
عمر کٹے یا کٹ جائے شب دریا میں
رنج نظر کا آخر آنکھ میں تیرے گا
لاش دبی رہتی ہے بھلا کب دریا میں
چاہت نے اسباب نہ دیکھے تھے ماجدؔ
کھُرتی خاک لئے اُتری جب دریا میں
ماجد صدیقی

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s