ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 87
اَن چکّھا، چکّھا تو میں شیطان لگا
اور جنّت میں مجھ پر یہ بہتان لگا
آیا ہے پھر کرب کوئی غُرّانے پر
جنگل جیسا پھر یہ دل سنسان لگا
چھُو کر دیکھا تو جل اُٹھیں پوریں بھی
کام بظاہر جو بھی کوئی آسان لگا
ماند پڑی جُوں جُوں اُمید رہائی کی
کنجِ قفس تُوں تُوں ہے جنم استھان لگا
ڈُوب کے مرنے والوں کی فہرست لئے
تختہ سا اِک جھیل کنارے آن لگا
آنکھ سے اوجھل رنگوں کا سیلاب لئے
غنچہ غنچہ ماجدؔ کا دیوان لگا
ماجد صدیقی