ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 24
نجانے جرم تھا کیا جس کی یہ سزا دی ہے
کہ میری جان مرے جسم میں جلا دی ہے
رواں دواں ہے ہر اک بازوئے توانا میں
جو رسم خیر سے چنگیز نے چلا دی ہے
کھلی ہے اُس کی حقیقت تو سب ہیں افسردہ
وہ بات جس کو بھرے شہر نے ہوا دی ہے
کمالِ فن ہے یہی عہدِ نو کے منصف کا
کہ جو پُکار بھی اٹھی کہیں، دبا دی ہے
یہی کِیا کہ رہِ شوق میں مری اُس نے
بڑے سکون سے دیوار سی اُٹھا دی ہے
جو آ رہا ہے وہ دن آج سا نہیں ہو گا
تمام عمر اِسی آس پر بِتا دی ہے
جو رہ گیا تھا اُترنے سے آنکھ میں ماجد!ؔ
سخن نے اور بھی اُس دَرد کو جِلا دی ہے
ماجد صدیقی