ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 129
پیالوں میں امرت کے سم دیکھتے ہیں
یہ کیسا ستم اب کے ہم دیکھتے ہیں
کرشمہ یہ کس حرص کے گھاٹ کا ہے
کہ شیر اور بکری بہم دیکھتے ہیں
یہ کیا دور ہے جس کے پہلو میں ہم تم
ہر اک آن تازہ جنم دیکھتے ہیں
لٹی نم زباں کی تو کس عاجزی سے
فضاؤں کی جانب قلم دیکھتے ہیں
چلیں تیر کھانے پہ بھی ناز سے جو
ہم ان ہی غزالوں کا رم دیکھتے ہیں
جدھر بے بسی کے مناظر ہوں ماجدؔ!
خداوند اُس سمت کم دیکھتے ہیں
ماجد صدیقی