ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 127
تلاطم بحر کا آ کر نہ دیکھا
ہمیں اُس نے بہ چشمِ تر نہ دیکھا
کسی کے ہجر کا اب ہے جو، ایسا
کوئی بھی مرحلہ دُوبھر نہ دیکھا
ملا جیسے وہ اب کے، جان و دل پر
کھُلا جنّت کا ایسا در نہ دیکھا
نگل لیتا ہے جاں جس آن چاہے
زمانے سا کوئی اژدر نہ دیکھا
کبھی تھے چہچہے جس گھونسلے میں
ہُوا پھر یُوں، وہاں اِک پر نہ دیکھا
گھِرا ہے اَب کے یہ ژالوں میں جیسے
چمن کا حال یوں ابتر نہ دیکھا
خود اُس پر ختم ہے ماجدؔ ہنر یہ
گیا جس سے فنِ آذر نہ دیکھا
ماجد صدیقی