ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 117
جب بھی آئے کبھی چمن پہ نکھار
چرخ کرتا ہے اُس پہ گرد نثار
جس شجر پر سجے تھے برگ اور بار
رہ گئے اُس پہ عنکبوت کے تار
دامنِ وقت جو نہ تھام سکے
عمر بھر کاٹتا ہے وہ بیگار
شیر اُنہیں بھی ہے چاٹنے نکلا
میرے خوں سے بنے جو نقش و نگار
دشت میں تشنہ کام ہرنوں کو
آب ملتا تو ہے مگر اُس پار
سر پہ جب تک ہے آسماں ماجدؔ
آشیاں بھی کہاں ہے جائے قرار
ماجد صدیقی