ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 130
پھر دکھائی ہے شوخی ہوا نے
پیڑ کوئی لگا پھر ٹھکانے
کس توقّع پہ نوکِ مژہ پر
آنکھ موتی لگی ہے سجانے
میری جنّت ہے سب سامنے کی
سینت رکھوں نہ میں پل پرانے
جی سنبھلتا ہو جس سے کسی کا
بات ایسی یہ خلقت نہ جانے
یُوں تو بچھڑا ہے کل ہی وہ لیکن
دل یہ کہتا ہے گزرے زمانے
دَین سمجھو اِنہیں بھی اُسی کی
غم بھی ماجدؔ دئیے ہیں خدا نے
ماجد صدیقی