پر کرشمہ اور ہی اُس کے مکر جانے میں تھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 47
کم نہ تھا وہ بھی جو ارضِ جاں کے ہتھیانے میں تھا
پر کرشمہ اور ہی اُس کے مکر جانے میں تھا
سر نہ خم کر کے سرِ دربار ہم پر یہ کُھلا
لطف بعد انکار کے کیا، گال سہلانے میں تھا
حق طلب ہونا بھی جرم ایسا تھا کچھ اپنے لیے
جاں کا اندیشہ زباں پر حرف تک لانے میں تھا
سر بہ سجدہ پیڑ تھے طوفانِ ابروباد میں
اور دریا محو اپنا زور دکھلانے میں تھا
سانحے کی تازگی جاں پر گزر جانے لگی
کرب کچھ ایسا ستم کی بات دہرانے میں تھا
جاں نہ تھی صیّاد کو مطلوب اتنی جس قدر
اشتیاق اُس کا ہمارے پَر کتروانے میں تھا
پھر تو ماجد کھو گئے ہم بھی فنا کے رقص میں
خوف سب گرداب کے ہم تک چلے آنے میں تھا
ماجد صدیقی

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s