ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 103
جان پر سہہ کر خزاں کے وار ہم
صورتِ اشجار ہیں زردار ہم
وُہ بھی دِن تھے جب کسی کی دید سے
دمبدم تھے مطلعٔ انوار ہم
سامنے اُس کے سبک سر کیا ہوئے
لے کے پلٹے اور اک آزار ہم
ہر سفر ہے اَب تو ہجرت کا سفر
تھے کبھی اِس شہر میں انصار ہم
دل سے دل کو راہ اَب ہوتی نہیں
بھُولتے جاتے ہیں سب اقدار ہم
حال کیا جانے ہو ماجدؔ! باغ کا
دیکھتے ہیں اور ہی آثار ہم
ماجد صدیقی