دہن صدف کا فلک کی جانب کھلا ہوا رہ گیا ہو جیسے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 55
عجیب صورت ہے نامرادی ابرِ نیساں چھٹا ہو جیسے
دہن صدف کا فلک کی جانب کھلا ہوا رہ گیا ہو جیسے
مرے خدااس جہاں میں میرے لیے ہی قحط الرّجال کیوں ہے
مری زباں کو سمجھنے والا نہ کوئی رمز آشنا ہو جیسے
تُلا کھڑا ہے شکم اُڑانے پہ یوں پرخچے مری انا کے
پلنگ بعدِ شکار اپنے شکار سے کھیلتا ہو جیسے
شجر امیدوں کا سیلِ اشکِ الم سے یوں کھوکھلا ہوا ہے
جڑوں کو روتا درخت کوئی کنارِ دریا کھڑا ہو جیسے
بہ دشتِ خواہش دکھائی دینے لگی ہے یورش وہ وسوسوں کی
کہ زہر دانتوں میس اپنے مارِسیاہ نے بھر لیا ہو جیسے
کوئی مسیحا نفس ہو مجھ کو وہ اِس ترحمّ ے دیکھتا ہے
خدا نکردہ وہی بروئے زمین میرا خدا ہو جیسے
گمان کیا تھا مگر تمنّا کا حال ماجدؔ یہ کیا ہُوا ہے
کہ تودۂ برف کوئی اوجِ ہمالیہ سے گرا ہو جیسے
ماجد صدیقی

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s