تھا مگر وہ سرگراں ایسا نہ تھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 148
اُس پہ جو اب ہے، گماں ایسا نہ تھا
تھا مگر وہ سرگراں ایسا نہ تھا
بھُولنے والا ہو آسانی سے جو
اُس کے جانے کا سماں ایسا نہ تھا
لرزشوں میں ہو نہ جو پیہم گھِرا
باغ میں اِک آشیاں ایسا نہ تھا
ہر کہیں اب وجہ رُسوائی ہے جو
اپنے ماتھوں پر نشاں ایسا نہ تھا
اَب کے جو ماجدؔ نشیمن سے اُٹھا
پیڑ پر پہلے دُھواں ایسا نہ تھا
ماجد صدیقی

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s