ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 60
شاخ پر جو بھی پھول آتا ہے
اشک سا خاک میں سماتا ہے
شیر کس انتقام کی آتش
خون پی پی کے نِت بُجھاتا ہے
کیا یہ شب ہے کہ جس میں جگنو بھی
دُور تک راستہ سُجھاتا ہے
جانے قصّہ ہے کیا قفس میں جسے
نت پرندہ زباں پہ لاتا ہے
اَب تو ماجدؔ بھی چند قبروں کو
چُومتا ہے گلے لگاتا ہے
ماجد صدیقی