ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 89
پھول کچھ لمحے تو کچھ تھے سنگ برساتے رہے
کیسے کیسے وقت آئے اور گزر جاتے رہے
تھپکیوں سے بھی رہے تھے رس اُنہی کا چوستے
مہرباں جھونکے تھے جن پتّوں کو سہلاتے رہے
تھا اُنہی کے جسم میں وقتِ سحر خوں جم گیا
جو فصیلِ شب سے ساری رات ٹکراتے رہے
خوب تھا وہ آتے جاتے موسموں کا سا ملاپ
تم ملا کرتے تو تھے گرچہ بچھڑ جاتے رہے
خاک تھی وہ لذّتِ خواب سکوں جس کے عوض
آنے والے دن بھی گروی رکھ دئیے جاتے رہے
شاخچوں کے پھول پھل پڑنے سے پہلے توڑنا
ایسی رسمیں بھی یہاں کچھ لوگ دُہراتے رہے
یاد سے ہو محو ماجدؔ کیسے اُن چہروں کا عکس
شدّتِ خواہش سے جو دل میں اُتر آتے رہے
ماجد صدیقی