ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 75
جلال کیوں نہ دکھائے یہ چشمِ برہم کا
رہا ہی ایک سا کب ہے مزاج موسم کا
فرازِ عرش پہ ترجیح فرش کو دینا
یہی تو ہے کہ عجوبہ ہے ابنِ آدم کا
رُتوں نے خاک اڑا کر ہے اب کے لوٹایا
ہوا پہ قرض تھا جتنا بھی چشمِ پر نم کا
خموشیاں ہیں سیہ پوشیاں ہیں ہر جانب
بہار ہے کہ یہ عشرہ ہے کوئی ماتم کا
سرور چال میں کِھلتی ہوئی رُتوں جیسا
نشہ نگاہ میں آہو کے ایک اک رم کا
نکالتا نہ ہمیں ذہن سے تو کیا کرتا
سخن میں یار کے پہلو تھے اک ہمیں ذم کا
ہزار پیاس سے تو ایڑیاں رگڑ ماجدؔ
ترے لیے کوئی چشمہ نہیں ہے زمزم کا
ماجد صدیقی